نیپال میں سرمایہ دارانہ بدعنوانی کے خلاف نوجوانوں کی بغاوت: نظام کے خلاف کیسے لڑا جائے

تحریر:جاکلین کیتھرینا سنگھ،ترجمہ۔عرفان خان

سنگھ دربار جہاں نیپالی حکومت کے دفاتر ہیں آگ کی لپیٹ میں تھےاور یہ مناظر دنیا بھر کے سامنے ہیں۔ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل مظاہرین نیپالی کانگریس پارٹی کے چیئرمین اوران کی اہلیہ (قائم مقام وزیرِ خارجہ) کو گھیر کر مار رہے ہیں جب کہ بیریکیڈز پر جولی راجر کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ انڈونیشیا میں ہونے والے بڑے عوامی احتجاج کے بعد اب نیپال میں بھی عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

 مغربی میڈیا ان واقعات کو ’’جنریشن زی کا سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف غصہ‘‘ قرار دے رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ اس نظام کے بحران کے خلاف احتجاج ہے ۔ سرکاری عمارتوں اور امراء کے گھروں کو آگ لگانے والے نوجوان دراصل پورے بدعنوان اور ناانصافی پر مبنی نظام کے خلاف ہیں۔ اب سوال یہ ہے یہ تحریک کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے؟ اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس بغاوت کی وجوہات اور واقعات کی ترتیب کو دیکھیں۔

واقعات کا سلسلہ

۔4ستمبر 2025 کوحکومت نے اچانک انسٹاگرام، فیس بک، واٹس ایپ اور اسنیپ چیٹ سمیت 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگا دی۔ اس کے فوراً بعد ملک بھر میں بجلی بند کر دی گئی۔ حکومت کا یہ جواز تھا کہ ان کمپنیوں نے ریاستی نگرانی کے لیے رجسٹریشن سے انکار کیا تھا۔

یہ فیصلہ حیران کن نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے پہلے ہی ستمبر 2024 میں حکم دیا تھا کہ تمام پلیٹ فارمز کو رجسٹر ہونا ہوگا تاکہ حکومت ’’ناموزوں مواد‘‘ کو کنٹرول کر سکے۔28 اگست کو حکومت نے الٹی میٹم دیا تھاکہ سات دن میں رجسٹر ہو جائیں ورنہ یہ کمپنیاں بند کر دی جائیں گئیں۔ کچھ کمپنیوں جیسے ٹک ٹاک اور وائبر نے حکم مان لیاتھا لیکن فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ نے انکار کر دیا تھا۔ مبصرین کے مطابق اصل وجہ یہ تھی کہ حالیہ ہفتوں میں ٹک ٹاک پر سیاسی اشرافیہ کے بیٹے بیٹیاں اپنی عیاشی اور دولت کا مظاہرہ کرتے دکھائے جا رہے تھے ایسے ملک میں جہاں سالانہ اوسط آمدنی صرف 1400 ڈالر ہے۔

۔8ستمبر 2025 کوکھٹمنڈو کی سڑکیں عوام سے بھر گئیں۔ خاص طور پر شہر کے مرکز میں میتیگھر منڈلااورنیو بانیشورمیں پارلیمنٹ کے آس پاس یہ احتجاج اصل میں ایک این جی او “ہمی نیپال” کے انیل بانیہ نے منظم کیا تھا۔ لیکن پولیس نے پتھراؤ کے جواب میں براہِ راست فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں 19 افراد مارے گئےاور 347 زخمی ہوئےجن میں اسکول یونیفارم میں بچے بھی شامل تھے

بانیہ نے بعد میں کہا کہ یہ احتجاج بیرونی قوتوں اور پارٹی کارکنوں نے “ہائی جیک” کر لیا تھا لیکن یہ حقیقت بھی اس وحشیانہ کارروائی کا جواز نہیں ہے۔ سیکورٹی فورسزکی گولیوں نے ایک مظاہرے کو قتل عام میں بدل دیا۔ شام کو حکومت نے صورتحال کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ سوشل میڈیا کی پابندی ہٹا دی گئی۔ وزیر داخلہ رمیش لیکھک نے استعفیٰ دے دیا اور کرفیو نافذ کر دیا گیا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی ۔ تحریک اب  حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کررہی تھی۔

منگل 9 ستمبرکو احتجاج میں شدت آگئی۔ نوجوانوں نے کرفیو کی پرواہ کیے بغیر پارلیمنٹ کی عمارت کے گرد جمع ہونا شروع کر دیا۔ کچھ نے تو منگل کی صبح گروونگ کے گھر اور ایک ہوٹل کو بھی آگ لگا دی۔ صدارتی محل، وزیر اعظم کی رہائش گاہ، وزیر اعظم اولی کا ذاتی گھر، وزیر داخلہ، اور کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماؤسٹ) کے  لیڈر کے گھر کو بھی آگ لگادی گئی جو اپوزیشن میں ہیں ۔ سی پی یو ایم ایل (کے پی این-متحد مارکسٹ-لیننسٹ) کے پارٹی ہیڈکوارٹر پر بھی حملہ کیا گیا۔

اس کےنتیجے میں وزیر اعظم کھڑگا پرساد شرما اولی نے استعفیٰ دے دیا اور کئی وزراء اورارکان پارلیمنٹ بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔ اسی رات نیپالی فوج نے “قانون اور نظم و ضبط”کو یقینی بنانے کے لیے “کنٹرول” سنبھالنے کا اعلان کردیا۔ فوج نے مظاہرین کو امن مذاکرات کی دعوت بھی دی۔ بی بی سی کے ایک نمائندے کے مطابق طلباء رہنماوں نے مطالبات کی ایک تازہ فہرست پیش کی ہے۔

فوج نے کنٹرول سنبھال رکھا ہے اور وہ طاقت اور پرامن مذاکرات (جس میں طلباء نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے) کے امتزاج سے حالات کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہے

پس منظر

بادشاہت کے خاتمے کے 17 سالوں میں نیپال میں 13 مختلف حکومتیں بنی ہیں۔سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور معاشی جمود نیپال کی پہچان بن گیا ہے۔

۔2022کے ایوان نمائندگان کے انتخابات میں تینوں کمیونسٹ پارٹیوں کے پی این وی ایم ایل، کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماؤسٹ سینٹر) اور کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (متحد سوشلسٹ) نے مل کر تقریباً 44 فیصد نشستیں اور 40 فیصد ووٹ حاصل کیے جو ایک اچھی پیش رفت لگ رہی تھی۔

لیکن ان انتخابات کے بعد 19 مہینوں میں چار مختلف اتحادی حکومتیں بنیں۔ احتجاج سے پہلے حکومت سی پی این(ایم ایل) اور نیپالی کانگریس پارٹی نے بنائی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایکٹیوسٹوں کی ایک پوری نسل سیاسی عدم استحکام میں پروان چڑھی ہے جسے وہ برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ 2024 میں نوجوانوں میں بے روزگاری تقریباً 20 فیصد تھی۔ ہر روز تقریباً 2,000 نوجوان نیپالی خلیجی ریاستوں یا جنوب مشرقی ایشیا میں کام کرنے کے لیے ملک سے جانے پر مجبور ہیں۔ 2008 اور 2022 کے درمیان 4.7 ملین سے زیادہ نئے ورک پرمٹ جاری کیے گئے۔ سرکاری طور پر دس لاکھ نیپالی بھارت میں کام کرتے ہیں لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اندازہ ہے کہ تقریباً 6 ملین لوگ (کام کرنے کی عمر کی آبادی کا 32 فیصد) بیرون ملک ملازمت کرتے ہیں۔

نیپال کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور زراعت میں کام کرتی ہے۔ افرادی قوت کا 62 فیصد زراعت پر انحصار کرتا ہے لیکن یہ جی ڈی پی کا صرف ایک چوتھائی حصہ ہے۔ صنعت میں 17 فیصد سے کم لوگ کام کرتے ہیں لیکن اس کا جی ڈی پی میں حصہ صرف 13 فیصد ہے۔ سروس سیکٹر جی ڈی پی کا 52 فیصد ہے اور یہ سب سے بڑا حصہ ہے لیکن اس شعبے میں صرف 20.5 فیصد لوگ کام کرتے ہیں۔ یہ احتجاج اب تک شہروں خاص طور پر کٹھمنڈو میں مرکوز رہا ہے۔

تحریک کی قیادت کا بحران

اس بڑی تحریک میں قیادت کا گہرا بحران ہے۔ نیپال کی کمیونسٹ پارٹیوں کی پالیسیاں حل نہیں ہیں بلکہ یہ خود مسئلے کا حصہ ہیں۔ ماؤسٹ پارٹیوں کے بورژوا پروگرام  کی حقیقت موجودہ احتجاج نے واضح کردی ہے۔ بورژوا یا بادشاہت کے حامی “اپوزیشن” والے بھی اب خود کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بادشاہ گیانندر کو بادشاہت حامیوں کی طرف سے حمایت مل رہی ہے جنہوں نے خانہ جنگی کے بعد مارکسی حکومتوں کی مخالفت کی تھی۔ ماضی میں انہیں موجودہ سیاسی نظام سے مایوس ہونے والوں کے لیے “مزاحمت کی علامت” کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس سال کے شروع میں ہزاروں بادشاہت کے حامیوں نے بادشاہت کی بحالی کے لیے مظاہرہ کیا تھا۔ یہ مظاہرے کچل دیے گئے اور کم از کم دو افراد ہلاک ہوئے۔ کٹھمنڈو ضلعی انتظامیہ نے مرکزی سرکاری اضلاع میں دو ماہ کے لیے پانچ سے زیادہ لوگوں کے اکٹھے ہونے پر پابندی لگا دی تھی جس میں بھوک ہڑتال، مظاہرے اور ریلیاں شامل تھیں۔ اس وقت نیپال میں بادشاہ کی واپسی کی بحث بھی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔

دوسری طرف کٹھمنڈو کے آزاد میئر بالیندرشاہ ہیں۔ الجزیرہ نے انہیں احتجاجی تحریک کا چہرہ کہا ہے جبکہ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق وہ یا تو آزاد امیدوار کے طور پر یا راشتری سواتنتر پارٹی (قومی آزادی پارٹی) کے ذریعے وزیر اعظم کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔

ان دونوں رجحانات سے یہ واضح ہے کہ ایسے بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج شاذ و نادر ہی ہم خیال ہوتے ہیں لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کون سی قوتیں غالب آئیں گی۔ اس وجہ  سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے؟

ماضی کے اسباق

نیپال کی احتجاجی تحریک کے بہت سے مطالبات بین الاقوامی پریس یا سوشل میڈیا تک نہیں پہنچے ہیں۔ اگر یہ تحریک واقعی بدعنوانی سے لڑنا چاہتی ہے تو اس کو اس کی بنیاد کو سمجھنا ہوگا۔محض علامتی اقدامات یا انفرادی مطالبات کافی نہیں ہیں۔ ماضی سے سیکھنا ضروری ہے 2024 میں بنگلہ دیش میں طلباء نے بدعنوانی سے لڑنے کے لیے پارلیمنٹ پر دھاوا بولا تھا۔ لیکن اس بغاوت کا کیا نتیجہ نکلا؟ حکومت کے سربراہ کو ملک سے باہر نکال دیا گیا ایک عبوری حکومت نے اقتدار سنبھال لیا اور سابق سیاسی راہنماوں کو نظام کا حصہ بنا لیا گیا۔ اب انہیں خود بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مطالبات جو طاقت پرمنظم کنٹرول کے لیے جدوجہد نہیں کرتے وہ بورژوا ڈھانچوں کی حدود کو قبول کرلیتے ہیں۔

نیپال میں ماؤسٹوں نے بھی یہی کیا تھا انہوں نے 2006 میں خانہ جنگی جیتی (صرف گوریلا جنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ شہری آبادی میں بڑے پیمانے پر بغاوت اس کی اہم  وجہ تھی)۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت قائم نہیں کی یہ کہتے ہوئے کہ نیپال ابھی اس کے لیے تیار نہیں ہے اور اسے پہلے ایک “جمہوری” اور “سامراج مخالف”(خاص طور پر بھارت مخالف) سرمایہ دارانہ ترقی کے عہد سے گزرنا ہو گا۔ جس کی وجہ سے وہ ایک بورژوا حکومت کا حصہ بن گئے (شروع میں یہ بادشاہت کے تحت تھی)۔ زرعی اصلاحات کو ملتوی کر دیا گیا اور سرمایہ دارانہ معیشت برقرار رکھی گئی کہ “پہلا قدم بورژواء درمیانی مرحلے کے ذریعے غریبوں کی زندگی کی سطح کو بلند کرنا ہے”۔

کے پی این(ماؤسٹ سینٹر) کی پالیسی مسلح پیٹی بورژوا جدوجہد اور اصلاح پسند پارلیمنٹیرینزم کی ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال ہے۔ چند مہینوں میں اور بغیر کسی بڑے اندرونی تنازع کے 2006 میں پارٹی نے حکومت میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

ان دونوں مثالوں میں ایک بات مشترک ہےیعنی وہ یہ واضح کرتی ہیں کہ بدعنوانی کو صرف اپیلوں یا انتخابی اقدامات سے نہیں روکا جا سکتاہے۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قومی سطح پر “جمہوریت” کو برقرار رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ معیشت کو برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ ماؤسٹوں کے “مراحلہ وار انقلاب” کا نظریہ صرف موجودہ حالت کو برقرار رکھنے اور سرمایہ دارانہ بدحالی کو سنبھالتا ہے۔

سالوں سے نیپال کی مختلف “کمیونسٹ” پارٹیاں ریاستی نظام کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان کے سرمایے اور زمین کے ملکان سے گہرے تعلقات ہیں اور بہت سے لوگ خود بھی طبقہ امراء کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ منڈی کی معیشت کی حمایت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2018 میں کے پی این(وی ایم ایل) اور کے پی این(ماؤسٹ سینٹر) کے انضمام سے بننے والی نیپالی کمیونسٹ پارٹی نے زور دیا تھا کہ نجی شعبہ ملک کے لیے “ترقی کا انجن”ہے اور اسے فروغ دیا جانا چاہیے۔

صرف عام جمہوری مطالبات تک محدود رہنا جو حقیقت میں کسی مقصد کے بغیر ہوتے ہیں بالآخر یہ بورژوا قوتوں کے آگے سر جھکانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جو کوئی بھی بدعنوانی سے کامیابی سے لڑنا چاہتا ہے اسے مسئلے کی جڑ پر حملہ کرنا چاہیے۔اسے اشرافیہ کی طاقت کو چیلنج کرنا ہوگا، ریاست کے ڈھانچوں کا پردہ فاش کرنا اور پورے سامراجی نظام کو للکارنا ہوگا۔ یہ بھی واضح ہے کہ نیپال کی آزادی صرف قومی سطح پرممکن نہیں ہے اس کے لیے استحصال اور سامراج کے خلاف بین الاقوامی جدوجہد میں یکجہتی اور نظریات کی ضرورت ہے۔ لیکن عملی طور پر یہ کیسے ہوگا؟

انقلابیوں کے فرائض

انقلابیوں کا کام یہ ہے کہ وہ تحریک کے اندر بورژوا پارٹیوں سے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد کریں اور ایک انقلابی پروگرام کے لیے لڑیں جو مزدور طبقے اور کسانوں کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ محلوں اور دیہی علاقوں میں ایسی کمیٹیوں کی ضرورت ہے جو موجودہ واقعات پر جمہوری بحث کریں اور فوج کی گرفتاریوں کے خلاف اپنا دفاع کرسکیں۔ ورنہ مختلف طبقاتی مفادات کی وجہ سے تحریک بکھر سکتی ہے اور بورژوا یا پیٹی بورژوا قوتوں کو تحریک کی قیادت کرنے کا موقع مل جائے گا یا فوج کے ذریعے اس آگ کو بجھا دیا جائے گا جو “جنریشن زیڈ” کو سڑکوں پر لائی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خود تنظیمی اور دفاعی کمیٹیاں بنانے کا سوال اتنا اہم ہے جو مزدور طبقے اور کسانوں میں بنیاد رکھتی ہو۔ خاص طور پر فوج کے اقدامات ان کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ “آنڈیپنڈٹ مارکسسٹ” کا قدم جس نے ریاستی تشدد کے خلاف مظاہرین کا دفاع کرنے کے لیے “صفال ورکرز اسٹریٹ کمیٹی” قائم کی یہ ثابت کرتی ہے کہ اس کی بنیادیں موجود ہیں۔ ان کے مطالبات حکومتی ارکین کی گرفتاری، ریاست کی غیر مسلح کاری، امیروں کی ملکیت ضبط کرنا، عوام کو مسلح کرنا، پارلیمنٹ کو تحلیل کرنا اور مزدوروں کی اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہیں۔

ان مطالبات کو بلاشبہ بڑے زمینداروں کے خلاف اور بے روزگاری کے خلاف جدوجہد جیسے اہم اور فوری مطالبات کے ساتھ جوڑنا ہوگا لیکن یہ یکدم نہیں ہو گا۔ اس مقصد کے لیے لڑنے کے لیے ایک انقلابی مزدور طبقے کی پارٹی بنانا ضروری ہے جو انقلابی مزدوروں، طلباء اور نوجوانوں پر مشتمل ہو اور ایک انقلابی پروگرام کے ساتھ لیس ہو تاکہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے مزدوروں، فوجیوں اور کسانوں کی کونسلوں پر مبنی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت قائم کی جا سکے جس کا دفاع ایک مسلح ملیشیا کرے۔

ایسی حکومت مہنگائی اور غربت کے خلاف ایک ہنگامی پروگرام متعارف کروائے جس کی مالی امداد امیروں، مالیاتی شعبے اور بڑے سرمایہ داروں کی ملکیت ضبط کر کے کی جائے گی تاکہ ایک جمہوری منصوبہ بند معیشت قائم کی جا سکے۔

اپریل 2006 میں کٹھمنڈو میں بغاوت اور موجودہ احتجاج یہ ظاہر کرتا ہے کہ پرولتاریہ کی نسبتا کم تعداد کے حامل ممالک میں بھی شہری آبادی انقلاب کے دوران مرکزی کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ دونوں واضح کرتے ہیں کہ ایک حقیقی سوشلسٹ انقلاب کا امکان موجود ہے اور یہ انقلابیوں کا کام ہے کہ وہ ایک ایسے انقلابی پروگرام کے ذریعے آگے کا راستہ واضح کریں جو بدعنوانی کے خلاف جدوجہد جیسے فوری مطالبات کو ایسے عناصر کے ساتھ جوڑئے جو سوشلزم کی جدوجہد میں اضافہ کرسکتے ہیں جس میں مزدوروں اور کسانوں کا کنٹرول ہو۔ ایسا پروگرام  یہ واضح کرتا کہ حقیقی اور مکمل آزادی صرف بین الاقوامی سطح پر آسکتی ہے۔ ایک ملک میں سوشلزم ممکن نہیں ہے لہذا انقلاب بین الاقوامی مزدور تحریک اور ایک نئی انٹرنیشنل کی تعمیر کے ساتھ ہی ممکن ہے

SOURCE:

https://socialist-resistance.org

Loading

Related posts